بچہ جموُرا – ایک ہی ایکٹ کا ازلی ڈرامہ

اقوامِ عالم کی بھیڑ ہے، زندہ اقوام، مُردہ اقوام، متمول و مُفلس، آزاد اقوام، غلام اقوام، سچ مُچ کی غیرت مند اور غیرت کی محض دعویدار اقوام، سازشی و شرارتی اقوام ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ بڑی قوموں کے بیٹھنے کیلئے آرام دہ صوفے لگے ہیں اور انکی زیرِ دست اقوام کے نمائندے اپنی اپنی غرض کے مورچھل سے حاکم قوموں کی اناؤں کی ہوا کا انتظام بہم پہنچا رہے ہیں۔ چند قوموں کیلئے کرائے کی کُرسیوں کا اہتمام کیا گیا ہے، پیدل قومیں کھڑی ہیں اور معذور قومیں زمین پر اکڑوں بیٹھ کر تماشہ گاہ پرنگاہ رکھنے کی بجائے نہ جانے کِن خیالات میں گُم ہیں۔

مجمعے کے اطراف میں جگہ جگہ میڈیائی نمائندے درد کی دلالی کیلئے کیمرہ بستہ ہیں اور اس فکر میں ہیں کہ ہر ایک کو تماشے کا وہی کرتب دکھانے کی اجازت ہے جسکی آقاؤں نے فرمائش کی ہے، ایک طرف عالمی اداروں کے نمائندے فائلیں سینے سے لگائے کھڑے ہیں، ان فائلوں میں تمام مداریوں اور جموروں کے جملہ کوائف تفصیل اور صراحت کے ساتھ موجود ہیں، جگہ جگہ تماشہ ہورہا ہے اور ایک طُرفہ تماشہ شروع ہوا چاہتا ہے، مجمعے میں چہ میگوئیاں جاری ہیں اور مداری ڈگڈگی لئےمیدان میں آگیا ہے جہاں بچہ جمورا پہلے سے بے سُدھ پڑا ہے

بچہ جموُرا

اللہ اللہ

بچہ جموُرا، توُ کون؟

میں غریب عوام

بچہ جموُرا تیرا کام کیا

غلامی

تیرا خواب کیا؟

حکمرانی

تیرے خواب کی تعبیرکیا؟

حیرانی، بدگمانی

بچہ جموُرا، کب سے؟

ازل سے

یہی ہے تیرا کام جموُرا، ازل سے تیراخواب ادھورا، اِدھر کو دیکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈگڈگی پر ناچ کر دِکھا، شاباش شاباش جمورے، سوچتا کچھ توُ کاش جموُرے، رہتے نہ یوں خواب ادھورے،ناچ ناچ ناچ

بچہ جموُرا؟

اللہ اللہ 

ذرا ایک دم کو سانس لے، اور اگلے سانس میں سارے عالم کے مجمعے کو بتا دے تیرے کارنامے کیا ہیں، بول، راز کھول، دنیا گول، ترا کشکول پیارے، بول پیارے،چل اب دنیا کو بتادے کہ توُ کہاں کہاں دِکھتا ہے؟

دیکھو دیکھو میں دِکھتا ہوں، ہرجا، ہرقرن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر دور ہے میرا دور پیارے، اہرامِ مصر کی گردابوں سے، تاج محل کی محرابوں تک، میرا خوُن دِکھائی دے گا، میرا شور سُنائی دے گا، میرے دم سے محل منارے، میرے دم سے عیش تمہارے

بچہ جموُرا، یہیں پہ رُک جا، مجمع صرف تماشہ دیکھا کرتا ہے، داستانیں نہیں سُنا کرتا، اپنی محرومیاں بیان کر اورخالی کشکول کا دھیان کر، ارے موُرکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر سے بول، لبوں کو کھول

ہائے ہائے، ظلم ہوا ہے، بد قسمت ہے میری ہستی، لُٹتی ہے میری ہر بستی، منگولوں سے تاتاروں تک، عہدِ مغل کے درباروں تک، شاہ زادوں اور زرداروں تک، سب نے رکھا مُجھ کو بھوُکا، مجھ کو میرے خواب دِکھا کر، چھینا مُجھ سے روکھا سوُکھا، جب بھی اپنا حق مانگا ہے، سب نے میرے منہ پر تھوُکا!

بچہ جموُرا، خبردار، ہوشیار، مجمعے میں بڑے بڑے صاحبانِ اختیار و ذی وقار کھڑے ہیں، ان کا مزہ خراب کرتا ہے، کاہے کو؟ ارے نادان، پکڑ گردان، محرومی کی، ناداری کی، بھوک کے غم کی، بیماری کی، اور پھر دیکھ، یہ رحم والے انسان دوست تجھے تیری اوقات سے بڑھ کر دیں گے، اِک دوجے سر چڑھ کر دیں گے

کیسے بولوں؟ کس کو بتاؤں؟ کس کو دل کا حال سناؤں؟ ننگے تن پر سب دِکھتا ہے، کس کو روح کا زخم دکھاؤں؟ میری غُربت ہی ٹھہری مول میرا، مری دولت فقط کشکول میرا، میری مشکل آساں کردو، پھر سے اس کشکول کو بھر دو

بڑی اقوام کشکول میں اتنی اتنی دولت ڈال دیتی ہیں کہ کشکول خالی بھی نہ رہے اور پورا بھی نہ بھرے، اس فیاضی کے بعد تمام بڑی اقوام حقارت سے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور مجمعے سے جانے لگتی ہیں، پیدل کھڑی اقوام ان کو جھک کر ادب سے راستہ دیتی ہیں، ان کے جانے کے بعد دیگر اقوام مداری سے اظہارِ ہمدردی کیلئے اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دے کر جمورے سے اپنی ہمدردی جتاتی ہیں اور اس کی حالت بدلنے کیلئے اپنے تعاون کی پیشکش کرتی ہیں، مداری خوشی میں سر ہلاتا ہے اور پھر ڈکڈگی بجا کر جمورے سے کہتا ہے

شاباش جمورا، تیرا کشکول بھرگیا، دیکھ تیری خاطر کیا کیا جتن نہیں کئے میں نے، تیرے لئے ان سب کے سامنے کھڑا ہوکر اپنا حال سنایا اور دیکھ تجھ سے کیا چھپا ہے؟ دیکھ سب کو کتنا درد ہے تیرا، ادھرآ یہ کشکول کی دولت مجھے پکڑا، میں نے تیری راحت کے جو خواب دیکھے ہیں، اسی دولت سے ان کی تعبیر ملے گی

بچہ جمورا خاموشی سے کشکول مداری کے آگے کردیتا ہے، مداری کشکول کو خالی کرکے اسے جمورے کے ہاتھ میں رہنے دیتا ہے اور پھر کچھ سکے اسکی طرف اچھال کر کہتا ہے، یہ لے جمورے، اس پر تیرا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا میرا، جمورا خالی آنکھوں سے آسمان تکتا جاتا ہے اور مداری ہجوم کے ساتھ مل تھوڑی دور جاکر کھڑا ہوجاتا ہے جہاں ایک اور تماشہ شروع ہونے کو ہے

جمورا مداری سے بددل ہوگیا ہے اور سوچ رہا ہے کہ آنے والا اگلا مداری نہ جانے کیسا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ڈرامہ آپ کی خدمت میں چند بڑی اقوام، بین الاقوامی اداروں اور بہت سی غافل اقوام کے تعاون سے پیش کیا گیا

4 thoughts on “بچہ جموُرا – ایک ہی ایکٹ کا ازلی ڈرامہ

  1. واہ۔ نہایت بہترین۔ الفاظ کےانتخاب سے لیکر ہر منظر جاندار ہے۔ عریاں حقیقت کا تلخ اظہار۔

    Like

  2. مجھے یہ پڑھتے وقت بار بار 2011 کی فروری کی ایک سرد صبح یاد آ رہی تھی جب مصنف لندن سے آکسفورڈ کی ایک بس میں سوار تھا اسی بس میں کچھ اور پاکستانی بھی شامل تھے جو ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن سے آکسفورڈ جا رہے تھے۔ اپنا جانا بھی اسی کانفرنس میں تھا تو ان سے دعا سلام کی اور ان کے ساتھ زیر بحث موضوع کو جاری کیا کرتے کرتے بات غیرت، غلامی، اور مقروض ملک کی جانب جا نکلی۔ تب بحث کے دوران ایبٹ آباد سے آئے ایک بھاری بھرکم طالب علم نے کہا کہ میاں اگر صاحب لوگ پیسے دینے بند کر دیں تو چپل تک نہ رہے گی پیروں میں۔۔۔ اس وقت نہ جانے کس وجہ سے چپ رہا اور جواب نہ دیا لیکن آج تک سوچ رہا ہوں چپل تو پہلے بھی نہیں ہے پیروں میں۔ کئی بھوکے ننگے جموروں کی حالت دکھا کر ان کے نام پر پیسہ لیا جاتا ہے لیکن وہ پیسہ کشکول میں سے جاتا کہاں ہے یہ سمجھ نہیں آتی۔ میری اور مجھ جیسے جموروں کی تعلیم کے نام پر پیسے لئے جاتے ہیں لیکن اعلی تعلم کے لئے ہم جیسے جموروں کو قرض لینا پڑتا ہے زر اور زمین بیچنا پڑتی ہے۔ اور پھر امید کی جاتی ہے کہ تعلیم کے بعد جمورے کے گلے پڑی رسی کھل جاوے گی۔ لیکن رسی کھلتی نہیں تبدیل ضرور ہو جاتی ہے۔ جمورے اور مداری کے درمیان اتنا لمبا فاصلہ ہے کہ جمورا چاہ کر بھی پوری جان لگا کر بھی اس مقام تک نہیں پہنچ پاتا اور جب پہنچ جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب اس پر ایک اس سے بھی بڑا مداری براجمان ہوا چاہتا ہے اور اب اس کا جمورا بن کے تماشا دکھانا ہوگا۔ تماشہ کا طرز مختلف ہوجاتا ہے لیکن کشکول پھر آخر میں خالی ہو جاتا ہے۔۔۔ سارا قصور اس لیکیج کا ہے جو رقم کو کشکول سے بہا لے جاتی ہے، جب تک وہ نہ رکی جمورا جمورا ہی رہے گا پیروں میں جوتا نہ ہوگا اور تعلیم کچھ نہ کچھ بیچ کر ہی حاصل کرنا پڑے گی۔

    Like

Leave a comment