All posts by Asim Ikram

غالب کا خط مختیارے کے نام

برخوردارِ سعادت آثار، عزیزم مختیار، سلامت رہو۔

میں نثر کی داد اور نظم کا صلہ مانگنے نہیں آیا، مشورہ دینے آیا ہوں۔ خدا کی پناہ، برادرم بقلم نے تمہاری اور “چن” کی گفتگو کا خلاصہ ارسال کیا، یہ جان کر ہی کلیجہ منہ کو آیا کہ ایسا رجلِ جہاندیدہ تم سے کیسے کیسے ناگفتنی اعمال کا متقاضی ہے۔لاحول ولا قوۃ۔ مجھے تو یہ گمان گزرے ہے کہ اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل کیلئےتم سے اُمید لگائے بیٹھا ہے۔ جہاں بھر کو کافور و کفن کی فکر لاحق ہے اور وہ توبہ و استغفار کی گھڑیوں میں تمہیں شب باشی تجویز کررہا ہے۔ زنہار نہ عمل کیجو، اطفال کے ہمراہ گھر رِہ لیجو۔کیوں مجھ کو محجوب کرتے ہو۔ اس باب میں اس سے زیادہ عرض نہیں کرسکتا۔
تمہاری طبعِ سادہ اصل خطرے سے ہنوز بے خبر لگتی ہے۔

بھائی یہاں کا نقشہ ہی کچھ اور ہے۔ سمجھ میں کسی کے نہیں آرہا کہ کیا طور ہے۔ اِس چرخِ کج رفتار کا بُرا ہو۔ ہم نے اِس کا کیا بگاڑا تھا۔توانگر فرصت سےاور غریب بھوک سے مررہا ہے۔ بجوگ ایسا کہ سرکار کی طرف سے سرِعام روبکاری تک کی مناہی ہے۔وسائلِ دست صفا کی دستیابی تک محال ہے۔اپنوں سے بیگانوں جیسا برتاؤ لازم ہوگیا ہے۔ نہ مصافحہ، نہ معانقہ۔اگر بھُولے سے چھینک آجاوے تو تمام اہلِ خانہ یوں گھورتے ہیں گویاسرِ عام گناہِ کبیرہ سرزد ہوگیا۔جس سناٹے میں ہوں وہاں تمام عالم بلکہ دونوں عالم کا پتہ نہیں۔ ہائے کیسا وقت آگیا ہے، سُنا ہے شریف لوگ بھی منہ چھپا کر گھر سے نکلتے ہیں۔ آدمی کو آدمی کی پہچان نہ رہے تو منہ چھپا لینے کو عیب نہ جانو۔

آدمی، آدمی سے ڈر رہا ہے۔ نفس نفس پر سراسیمگی طاری ہے۔ہفتہ بھر گزر گیا، ملاقاتی تو درکنا، ڈاک کا ہرکارہ تک نہیں آیا۔ ویران ڈیورھی پر نظر پڑتی ہے تو جی بھر آتا ہے، لگتا ہے محل سرا کی دیواریں اس گھر کی خاموشی سے ہی گِر جاویں گی۔کل شام چھجے پر مونڈھے رکھ کر آدمی دیکھا کئے مگر بشر نظر نہ آیا۔ جہاں بھر کے لوگ جان سے گزر رہے ہیں۔ لشکروں کے لشکر اس عالم پر حملہ آور ہوئے ، جنگ، کال، ہیضہ، طاعون ، کہیں بھوکے مرے، کہیں پیٹ بھرے مگر اس لشکر کے تو تیور ہی اور ہیں۔اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے اسی وباء نے ہلکان کر رکھا ہے۔ کان پر جُوں بھی رینگ جائے تو لگتا ہے اب کوئی دیر میں سانس اُکھڑے گی اور پھیپھڑے اکڑ جاویں گے۔ مگر خیر ہر ایک بات کا وقت ہے۔

تمہارے لئے اب میرے پاس دُعا اور نصیحت کے سِوا کچھ نہیں ہے۔ اس وباء کا دفیعہ گوشہ نشینی میں پنہاں ہے۔”چن” کے جھانسے میں مت آنا۔کچھ ناگوار گزرے تو غالبِ خستہ جاں کو آگاہ کرنا۔

نجات کا طالب، غالب

 

قصہ ہزار درویش

اے یارانِ ہمدرد و رفیقانِ جہاں گرد، کہانی درویشوں کی اِس عاجز کی زبانی سُنو اور تانے بانے حال کے اپنی مرضی سے بُنو۔ کہتے ہیں ایک بستی کہ کُل عالم میں جو بستی تھی، مکیں ہر نوع کی اُس میں ہستی تھی۔مرد و زن کو کھلے عام بات کی اجازت تھی، حاکمِ شہر کی منادی تھی کہ بات میں حروف گِنتی کےہوں، حد اگر پار ہو جاوے تو جلادِ خودکار زبان گُنگ کر دیوے۔ بغیر دیکھے بھالے فقیر کا دل بھی مشتاق ہوا اور راہ اُس بستی کی لی۔شہر پُر امن تھا اور رعایا مسرور، بستی میں جوق در جوق خاص و عام آنے لگے ۔قصہ مختصر کہ ہرگاہ بانسری چَین اور سکون کی بجتی تھی اور آواز کی گرانی کسی گوش پر نہ تھی۔

رفتہ رفتہ کچھ ناصحانِ وناقدان نے ٹھکانہ بستی میں کیا اور اپنےاپنے محلے کا انتخاب اپنی طبع کے شایان کیا ۔ بڑی خوبیاں رکھتے تھے، کچھ خدا لگتی کہنے پر قدرت رکھتے تھے تو کچھ حاکمِ وقت کی فوطہ برداری میں لسانِ طولیٰ کے استعمال سے نہ تھکتے تھے، کچھ یکبارگی انقلاب و تبدیلی کی آس میں واہی تباہی بکتے تھے، بُت پرستی عام تھی، اختلاف پر لعنت ملامت مُدام تھی، مُدعا کسی کسی کا اظہارِ فن تھا اور بہتوں کا طعن وتفنن میں مَن تھا، کچھ خلوت کے ہرجائی تھے تو بہتیرے سرِراہے عاشقی معشوقی کے شیدائی تھے غرضیکہ سبھی اپنی اپنی مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھ گئے، ویسے ہی پھکیت، ٹھٹھول باز، ہرزہ سرا، بھانکڑے، مفت کی واہ واہ کرنے والے جھوٹے خوشامدی آشنا ہوئے اور مصاحب بنے، اُنہی سے پہروں پہر صحبت رہنے لگی۔ ہر کہیں کی باتیں، ٹچکریں اور واہی تباہی اَدھر اُدھر کی کرتے، ہر پائنچے کو دندانِ تنقید سے کھینچنے کی سعی کرتے۔ روزوشب کی فکری تماش بینی کو عروج ہوا اور طبع سے برداشت و رواداری کا خروج ہوا۔ لفظی جی حضوریوں کی واہ واہ کے نان قلیے سے شکمِ انا بھرتے اورخلافِ طبع کلام والے ہرکس و نا کس کو راندہء درگاہ کرتے اور کہتے کہ اپنی راہ لے ، تیری قسمت کا دانہ پانی اپنی سرکارمیں یہیں تلک تھا۔

الگ ہر کوچے کا سماں تھا۔ جابجا کہیں سیاست کی مسندیں، کہیں شعروسخن کے دالان اور شہ نشینوں میں طلائی شمع دان، کہیں حسن وعشق کا بیان، کہیں زبانی اختلاط کے پوشیدہ مکان، مکانوں تلے کچھ آکر فقیرانہ صدا کرتے، کہیں پھساہندے چونچلے اور رمزوکنایہ ہوتا، مشہور کہیں شربتِ ورق الخیال کا جام تھا، ایک دوجے کو کافر کہنا عام تھا ۔فتوے دینے والے دم بھر کو سانس نہ بھرتے اور ہرکارے صبح و شام اعدادوشمار کی نک گھسنی کرتے، مافی الضمیر پر درماہہ پانے والے حقِ نمک خواری میں مگن، پادشاہی حکیم ہر مرض کی تشخیص کرتے اور مستعد سب آدمی اپنے اپنے عہدوں پر رہتے اور رعایا کی خبرگیری بھی ذمے رعایا کے ہوئی۔ پردیسی ادھر کو آتے اور کوئی راہ تدبر کی نہ پاتے کہ یہاں اپنی اپنی تدبیر میں ہر کوئی لقمان اور بوعلی سینا تھا۔ انقلاب کے منتظر اور بے ہُنر باہم دست و گریباں رہنے لگے۔ اپنوں کی عیب پوشی اور دوجوں کی عیب جوئی حق کی پہچان ہوئی۔

رفتہ رفتہ عالم یہ ہوگیا ہے کہ مملکت میں انہونی اگر سچ مچ کی بھی ہو گزرے تو پادشاہی حکیم جھٹ سے حاضر ہوجاویں، بااندازِ طبیب جمع ہوکر نبض قارورہ دیکھ کر غور فرماویں، آخرش تشخیص میں ٹھہراویں کہ قصور یہ تمام اعداء کے کم فہم کا ہے وگرنہ امر باالواقعہ انہونی کی مد میں نہ آوے لہذٰا چین کی بانسری بجائی جاوے۔جو واویلا اس واردات پر کرتے وہ چلتر، کورچشم اور دشمن امن کے کہلاتے۔غرض آدمی کا شیطان آدمی ہے۔

قاعدہ ہر کوچے کا یوں ہوگیا کہ ہاں میں ہاں ملانے پر ہر درویش سر کو ہلاتا، آداب بجالاتا اور ساتھ بٹھاتا مگر رفتہ رفتہ جب جرات عاجز کواختلاف کی ہوئی تو غول کا غول آتا اور بستی کے باہر چھوڑ کرجاتا، آج کا نہیں قرن ہا قرن سے حاشیہ برداری اور مصاحبت کا یہی قاعدہ ہے،جو صاحبان چمچہ بھر خون اپنا ہربات میں زبان سے نثار کرتے ہیں، جب بُرا وقت آوے گا تو کافور ہو جاویں گے اور یوں آنکھیں چراویں گے کہ عالم اندھیر ہے۔

انسان اپنے قول و قرار پر نہیں رہتا، غرض کے وقت پر سب کچھ کہتا ہےلیکن یاد نہیں رکھتا، مگر حق یہی ہے کہ نیت سے جو بوتا ہےوہی کاٹ لیتا ہے۔ وقت کی لُو چلچلاتی رہی اور مسند نشینوں کے ملبوس اُڑاتی رہی، بناوٹ کا ستر جب اُٹھ چکا تو بہلئے، ڈھلیت، یساول اور چوب دار نظر پڑے، واللہ! کیا ظلم ڈھایا، اپنے اپنے آدم زاد کو دیوتا بنایا اور دام احمقوں کے واسطے بچھایا۔ ہر بیمار دوسروں کی جراحی کا متمنی ہے، مگر خود کی خبر نہیں۔

بارے یہ کیفیت دیکھ کر طبیعت عاجز کی ایسی بے مزہ ہوئی کہ نہ مصاحبت کسو کی بھاوے نہ مجلس خوشی کی خوش آوے، دِل اُداس اور حیران، طبیعت مکدر ہوئی اور ناخوشی دماغ پر چھا گئی ۔ وہاں سے اُٹھ کر میں چلااور چاروں طرف دیکھتا تھا کہ کہیں بھی نشان کِسی درویش کا پاؤں۔بہتیرا سر مارا پر کہیں نہ پایا آخر مایوس ہوکر وہاں سے پِھر آیا۔ ناامیدی بُری چیز ہے، دنیا بہ اُمید قائم ہے، ایکا ایکی جی میں آئی کہ بالفعل صلاحِ وقت یہ ہے کہ صنعت کی اِس گٹھر ی کو طاقِ نسیاں پر رکھ کر بودوباش اپنی فراغت سے کرو۔ بعد اتنی کوفت اور آفت کے خدا نے یہ دن دِکھایا کہ میں نے اپنے دل کا مدعا پایا احباب کو سلام کیا ،تعلق تمام کیا یہ کہانی انوٹھی کہی اورچُپ سادھ کر گھر کی راہ لی۔

آگے حدِ ادب، جو مزاجِ مبارک میں آوے سو ہی بہتر ہے

بارہ مسالے کی چاٹ

ممکن ہے آپ نے بھی کبھی ایسی چاٹ کھائی ہو جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس چاٹ کی تیاری میں بارہ مسالے استعمال کئے گئے ہیں۔ اتنے زیادہ مسالے استعمال کرنے کی ایک معقول وجہ تو لذتِ کام و دہن  کی نازبرداری معلوم ہوتی جبکہ دیگر وجوہات میں طبیعت کا انشراح اور ذود ہضمی شامل رہی ہوگی۔ قصہ مختصر، ایسی چاٹ کھا لینے کے بعد معدے کی تمام “بھڑاس“ باآسانی اپنا رستہ بنا لیتی ہوگی

شانِ نزول اس مختصر تمہید کی یہ ہے کہ بارہ مسالے کی کم و بیش ایسی ہی مطبوعہ چاٹ کتابی شکل میں ہمارے ہاتھ لگ گئی ہے بارہ اجزائے ترکیبی اور جملہ خواص بھی بین بین وہی اور عملِ آخر کی مطابقت کی رہی سہی کسر مصنف نے کچھ یوں نکالی کہ کتاب کا نام ہی “بھڑاس“ رکھ دیا۔ ممکن ہے آپ کو سید عاطف علی کی یہ حرکت تحریری سگھڑاپا لگے مگر کتاب کھول کر دیکھیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ اُس نے پھوہڑ عورتوں کی طرح ان مسالوں کی الگ الگ پوٹلیاں بنا کر رکھ دی ہیں تاکہ قارئین، اپنے اپنے ذائقے، ظرف اور ہاضمے کے مطابق اپنی مرضی کے اجزائے ترکیبی باہم مِلا کر لذت اُٹھائیں، نتیجہ کچھ بھی نکلے، تعریف خاتونِ خانہ کے حِصّے میں ہی آئے گی۔ یہ پھوہڑ عورتیں ہوتی بہت چالاک ہیں

ایک فرسودہ قاعدہ ہے کہ جب تک کسی مصنف کے حالاتِ زندگی اور حسب نسب سے واقفیت نہ ہو، مصنف کی شخصیت کا اندازہ کرنا بڑا دشوار ہوتا ہے، چونکہ حالاتِ زندگی فی الوقت تاریخ کی کتابوں میں دستیاب نہیں، اِس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لگے ہاتھوں “بھڑاس“ کے مصنّف سید عاطف علی کے حسب نسب پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے عاطف نے کتاب میں لکھا ہے کہ “میں یہ، میں وہ، میرا باپ اتنا بڑا عالم، میرا دادا اتنا بڑا علّامہ، میرا نانا سب سے بڑا شاعرِ وقت، میں نے یہ کتاب لکھ کر دنیا پر اِحسان کیا ہے وغیرہ وغیرہ“ ملاحظہ کیجئے، عاطف نے دریا کے ساتھ اپنے ننھیال اور دودھیال کو بھی کوزے میں بند کردیا، آنے والی نسلوں کا ذکرمصنف مذکور نے غالباَ اِس خیال سے نہیں کیا کہ مباداَ دشمنانِ کوچہء ادب اِسے کوئی دور اندیش آدمی سمجھ بیٹھیں۔ اب ہم کوئی نقاد یا سیاسی مبصّر تو نہیں ہیں کہ جہاں چاہیں بالترتیب ڈنڈا یا ڈنڈی مار دیں، ہم نے جو پڑھا من و عن بیان کردیا

کسی روائتی مضمون نگار کی طرح “بھڑاس“ کے مصنف کی شان میں چند سِکہ بند قسم کے جملے لکھ دینا ہمارے لئے بہت آسان کام تھا اگر ہم کہہ دیتے کہ سیّد عاطف علی جدید دور کا لکھاری ہے، اُردو کے دامن میں ایک نئے عہد کا آغاز ہے، مُدتوں بعد اُردو کہانی کسی نئی سوچ سے آشنا ہوئی ہے یا سیّد عاطف علی نے مرتے ہوئے افسانے میں زندگی کی نئی رمق پھونک دی ہے مگر ہم ایسا ہرگز نہیں کہیں گے کیونکہ مصنف نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں اور نہ ہی اُس کی ایسی نیت ہے (جھوٹ کیوں بولیں، ہمیں تو مستقبل میں بھی اُمید نہیں ہے) البتہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی شائبہ نہیں ہے کہ سید عاطف علی جو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، اُسے احاطہء تحریر میں لانے کی ایسی قدرت رکھتا ہے کہ پڑھنے والا اُس کے محسوسات میں شریک ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اگر یقین نہ آئے تو کتاب پڑھ کر دیکھ لیجئے، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔

یوں تو عاطف علی کے کردار میں بھی ہماری طرح کئی خامیاں ہوں گی مگر اُس کی ایک خوبی کے ہم دِل و جان سے معترف ہیں اور وہ خوبی یہ ہے کہ عاطف علی اساتذہ اور بزرگوں کا بے پناہ احترام کرتا ہے وہ اِس طرح کہ موصوف نے اپنی کتاب میں نہ کہیں نصیحت کی ،نہ کہیں ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا اور نہ ہی مشورہ دیا اور ہمارا یہ ماننا ہے کہ ہمارے معاشرے میں پند و نصائح، ڈانٹ ڈپٹ اورسرزنش کرنے کے جملہ حقوق ہنوز اساتذہ، والدین اور دیگر بڑے بوڑھوں کے نام محفوظ ہیں، ممکن ہے معترضین اِسے مُصنف کی سُستی یا کاہلی پر محمول کریں مگر ہمارا ذاتی خیال ہے کہ جو شخص ساڑھے تین سو صفحات کی کتاب لکھ سکتا ہے اُسے پندونصائح کے دس پندرہ صفحات لکھ دینے میں کون سی موت پڑجاتی؟

 یہاں اِس حقیقت کی نشاندہی بہت ضروری ہے کہ صاحبِ “بھڑاس“ اس حوالے سے خاصے بدمعاش واقع ہوئے ہیں کہ انہوں نے امتنان قاضی صاحب جیسے شریف آدمی کو اپنی کتاب کا دیباچہ لکھنے پر راضی کرلیا، ہمیں ابھی تک شبہ ہے کہ یہ دیباچہ امتنان قاضی صاحب نےنہیں لکھا کیونکہ وہ کتنے ہی جتن کرلیں، آسان اُردو نہیں لکھ سکتے۔ اس ضمن میں عمر بنگش صاحب، مصنف سے زیادہ کائیاں ثابت ہوئے اور پہلے جملے میں ہی کہہ ڈالا کہ وہ مصنف کو بالکل نہیں جانتے، مطلب یہ کہ جس نے بھی کتاب پڑھنی ہو وہ اپنی ذمہ داری پر پڑھے

اشاعت سے پہلے اِس کتاب کی اخلاقیاتی جانچ پڑتال، نظرِثانی اور تمام تر مسوّدے کی کانٹ چھانٹ کی ذمہ داری ہمارے توانا کندھوں پر ڈالی گئی جِسے ہم نے بہ حُسن و خوبی یوں پورا کیا کہ کتاب میں ایسی اغلاط کی نشاندہی بھی کر ڈالی جو مصنف سے سرزد بھی نہیں ہوئیں تھیں، اِس ذمہ داری کے پردے میں ہم نے عاطف علی کی دامے، درمے تو نہیں البتہ سُخنے، حرفے خوب چاند ماری کی اور آفرین ہے اِس مردِ یارباش پر جِس نے ہمارے اعتراضات پر ایک بھی اعتراض نہیں اُٹھایا

آپ ابھی تک یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اِس مضمون میں “بھڑاس“ کے تمام تر غیر متعلقہ قضئے نمٹا دیئے گئے ہیں لیکن مصنف کی ایک بھی تحریر زیرِ بحث نہیں لائی گئی اور نہ ہی کتاب کے چیدہ چیدہ گوشے بے نقاب کئے گئے ہیں۔ دراصل ایسا نہ کرنے کی ایک معقول وجہ یہ ہے کہ سینما گھروں میں نمائش سے پہلے پوری فلم دیکھ لینے کے بعد اُس کا ٹریلر بنانا صرف ہدائتکاروں کو ہی زیب دیتا ہے، ہم جیسے تماش بینوں کو نہیں اور ایک نامعقول وجہ یہ ہے کہ اگر بارہ مسالے کی چاٹ بنا کر دوسروں کو ایک ایک چمچ محض چکھنے کے لئے دے دیا جائے تو چاٹ بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ امید ہے چاٹ کھا کر آپ ہماری بات سے اتفاق کریں گے

نوحہء اُردو

یوں تو اُردو زبان میں تیزی سے متروک ہونے والے الفاظ اور اُن کی جگہ انگریزی زبان کی تکلیف دہ حد تک وقوع پذیر ہونے والی آمیزش کے پر بات کرنے کیلئے ہم جیسے کم علم اور کوتاہ قامت بندے کو دعوت دینا ایسا ہی ہے جیسے کِسی کثیرالعیال آدمی کو خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت پر لیکچر دینے کی دعوت دے دی جائے اور یہ اُمید کی جائے کہ تنگنائے حمل سے لعل و گواہر بنادینے والا یہ عاجز زبان و بیان کے معاملے میں بھی ایسا ہی زرخیز و ثمر آور ثابت ہوگا۔ اگر احباب کی ناراضگی کا ڈر نہ ہوتا تو شائد ہم اِس موضوع پر کبھی نہ لکھتے کہ اُردو زبان کی عاشقی میں عزت سے ہاتھ دھو بیٹھنا صرف سادات کو ہی زیب دیتا ہے۔ ہم جیسے پنجابی کی اوقات ہی کیا کہ اُس کوچے میں رگِ گُل سے بُلبُل کے پَر باندھنے کی حماقت کرے

یادش بخیر، جوش ملیح آبادی نے کسی محفل میں اُردو کی ناقدری کا گلہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اُردو کے ساتھ ایسا سلوک کررہے ہیں گویا جیسے یہ گھر سے بھاگی ہوئی کوئی لڑکی ہے۔ خدا معلوم، جوش صاحب نے اِس بھاگی ہوئی لڑکی کے ادبار کا مزید اندازہ بھی لگایا کہ نہیں مگر ہم اپنی طرف سے اتنا اضافہ کئے دیتے ہیں کہ ظالموں نے اس تکلم چشیدہ سِتم گزیدہ لڑکی کو گھر سے بھاگنے کے بعد بھی کسی گھر کا ہونے نہ دیا، اِسے بچے پیدا کرنے سے بھی منع کردیا اور اِسے بانجھ کا بانجھ ہی رکھا۔ کسی اور بات کا رونا کیا روئیں، آپ رونے کو ہی لے لیجئے، رونے کی کتنی طبعی کیفیات ہیں، سِسکی، سُبکی، ہچکی، پھوٹ پھوٹ کر رونا، زاروقطار رونا، آٹھ آٹھ آنسو رونا، بے آواز رونا، روہانسا ہوجانا، آواز کا رُندھ جانا اور اگر اِن سے بات نہ بنے تو مگرمچھ کے آنسو رولینا مگر مجال ہے کہ رونے کی غیر طبعی اور خارجی کیفیات میں رونے کیلئے ڈھنگ کا کوئی لفظ مِل جائے۔ سب مایہ (مائع؟) ہے۔ لے دے کے ایک اشکِ ندامت ہے جِسے بہانے کی ہم میں سے کِسی کو فرصت نہیں۔

ترقی اور جِدت پسندی کے نام پر اُردو میں دوسری زبانوں، بالخصوص انگریزی ذخیرہء الفاظ کی آمیزش کا آغاز ہوا اور رفتہ رفتہ رِدائے اُردو میں جابجا زبانِ غیر کے پیوند لگتے چلے گئے، ہم نے جسمانی ستر پوشی کی بجائے لِسّانی ستر پوشی کو بڑی اہمیت دی، الفاظ نے متروکات کی اندھیری حویلی میں بسرام کیا، جملہ تشبیہات اور تلمیحات و استعارے محض شعر شاعری کے ٹانکے پرونے کیلئے وقف ہوگئے۔

بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ وقت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ الفاظ تخلیق کئے جاتے، مختلف النوع الفاظ کے صوتی آہنگ کی نئی تشکیل کی جاتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ  الفاظ میں بھی خاندان اور قبیلے ہوتے ہیں، ہمیں الفاظ کا ملاپ کراتے ہوئے اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ اِن میں سے کوئی لفظ نیچ خاندان کا تو نہیں، اگر اِس کا خیال نہ رکھا گیا تو خاندانی الفاظ کی نسل تباہ ہوجائے گی، کچھ الفاظ بڑے ٹھسّے والے اور طنطنے سے لبریز ہوتے ہیں، انہیں منجنیق کے گولے کی طرح بِلا خوف پھینک دینا چاہئے اور بعض الفاظ پردہ کرتے ہیں لہذٰا ہمیں بڑے پیار سے اُن کا گھونگھٹ اُٹھانا چاہئے مگر سِتم تو یہ ہوا کہ ہم نے جدت کے نام پر تایا، چچا، ماموں اور پھوپھا جیسے دبنگ الفاظ پر بھی انکل کا گھونگھٹ ڈال دیا۔ چچیرے، پھپھیرے اور خلیرے بھائی اب صرف قصے کہانیوں میں دستیاب ہیں  کیونکہ آج کا کزن اُنہیں قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔

روز مرّہ گفتگو کا کام تو ہم سب جیسے تیسے کرکے چلا ہی لیتے ہیں مگر ٹیکنیکل یا تکنیکی – مختص الاغراض – علوم کے معاملے میں بھی ہم نے نسوانی پردہ داری کی روایت بڑی خوبی سے نبھائی ہے۔ علومِ طبیعات، معاشیات، شماریات اور الجبرا و اقلیدس کی جِن اصطلاحات پر ہم نے بہ دِقتِّ تمام ہُنر آزمائی کی ہے وہ اُردو کے قالب میں آکر اِس قدر دقیق اور پیچیدہ معلوم ہوتی ہیں کہ اِس عُمر میں بھی اُنہیں یاد کرنے کی نسبت دوسری شادی کرلینا ہمیں نسبتاً سہل اور قابلِ عمل فعل محسوس ہوتا ہے۔

سارے جہاں میں دھوُم ہماری زباں کی ہے

تصّور کی آنکھ سے ملاحظہ کیجئے، وہ کیسا زمانہ ہوگا جب یہ مصرع اُردو کی عظمت کے اقرار کے ساتھ ساتھ ہماری شناخت کا اعلان بھی رہا ہوگا مگر جوں جوں عظمتِ رفتہ کے لعل و جواہر وقت کی گرد تلے دھندلے ہوتے چلے گئے یہ مصرع، یہ اقرار اور یہ اعلان بھی اپنا طنطنہ اور طمطراق کھو بیٹھا

ہم نے تو فکرِ روزگار کی ناز برداریوں میں یہ عُمر رائیگاں کردی مگر جن اصحاب نے اُردو کے فروغ کے نام پر اپنی زندگیاں مختلف حکومتوں کی تنخواہ داریوں میں گزار دی اُنہوں نے نجانے کِس مصلحت کی آڑ میں اِس پری وش کو گھونگھٹ تلے چھپائے رکھا اور کسی ایسے شہزادے کی ہوا تک نہ لگنے دی جو اِسے نئے آہنگ میں خواب دیکھنا سکھاتا، اِس کے روپ میں نئے رنگ سجاتا اور اِس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اِس کے لبوں سے نِت نئی باتیں کہلواتا۔

کہتے ہیں کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے تو اِس حوالے سے ہم نے اپنا حق سو فیصد نبھایا ہے کہ اِس مُلک میں سرکاری املاک اور اثاثہ جات کا جو حشر ہم آج تک کرتے چلے ہیں اُس کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اُردو واقعی ہماری قومی زبان معلوم ہوتی ہے، اب تو یہی آرزو ہے کہ کاش کوئی اِس کی نجکاری کرکے اِسے مزید زبوں حالی سے بچا لے

ہم جوش صاحب کی طرح بڑے آدمی نہیں ہیں جو بلا جھجک اُردو کو گھر سے بھاگی ہوئی کوئی لڑکی کہہ دیں مگر اپنی اوقات کے مطابق ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اُردو وہ خوبرو دوشیزہ تھی جو اپنوں کے تغافل کے سبب گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہوگئی ہے اور اِس کی تمام رعنائی اب بھی اِس کے بالوں کی چاندی میں پوشیدہ ہے

غالبِ (یا مغلوبِ) جدید کا خط، غالبِ قدیم کے نام

شفیقِ بالتحقیق، اے غالبِ حسرت بیاں، زرہء بے مقدار مغلوب کا سلام قبول کرو

حالاتِ الشعرا کی کتابِ کہنہ سے تمہارے مالی شدائد کی بابت جان کر مجھے تم پر رشک نہ آیا- سنتے ہیں کہ تمہارا طریق شاعری کے علاوہ قصیدہ گوئی بھی کسی طور رہا- اشرف الامراء صاحب بہادر گورنر غرب و شمال کو قصیدہ نذر بھیجا۔ نواب الدیار مقیم پانی پت کی خدمت میں منظوم فارسی تہنیت بسبیل تحسین و آفریں بذریعہ رسیدی ڈاک روانہ کی – مگر حیف ہے روساء سے اظہارِ خوشنودی کے طور پر پایا تو فقط خلعت سات پارچہ اور جیغہ و سرپیچ و مالائے مروارید – ہائے یہ کیا کیا؟ اس مالِ بے کار کی ہمراہی میں جھجر دھر کے حقہ پی لیا اور خطوط رقم کئے- حالات میں مرقوم ہے کہ روپے کا عارضہ دائمی تمہیں لاحق رہا- یہ جان کر کلیجہ منہ کو آیا کہ بادہء خونناب تک بقیمت لیتے رہے اور اپنے اشعار میں قرض کی لے کر پینے کا اعتراف بھی برملا کیا- اور تو اور پنشن بھی پائی تو سراسر ششماہی پائی۔

جب تک جئے، ایسے ہی جئے – داروگیر سے بچنے کو کرامتِ اسداللّہی جانا اور پیسوں کے ہاتھ آنے کو عطیہ یدِ اللّہی گردانا۔

اب میری زبانی سنو کہ اِس غالب کے دیوانے مغلوبِ جدید نے یہ عُمرِ عزیز رائیگاں تمہارے طریق پر نہ کی۔

جامعہ سے سندِ افتخار پاتے ہی تلاشِ روزگار میں روز و شب برباد کئے، مگر کسی در پر شنوائی نہ ہوئی، ہرگاہ خاص و عام سے سفارشی رقعہ جات بھی عرضی کے ہمراہ کئے مگر ہر صاحبِ اختیار نے لیت و لعل کی ۔ ناگاہ ایک روزنامے میں ماہوار مشاہرہ طے پایا اور قسمت کی دیوی نے در کھٹکھٹایا- شہرِ صحافت ایسا دیار ہے جہاں ہر نوع کی تعیشات کی فراوانی ہے۔ بجز اصولوں کے، یہاں کے بازاروں میں ہر شے بہ افراط مِلتی ہے- مدیر صاحب بہادر کا حکم تھا کہ واقعات کی تحریر میں کچھ نہ کچھ پہلو اربابِ اختیار کی گوشمالی کا کرو، سو میں نے بلا حجت کیا اور بے حجابانہ کیا- عاجز نے سالانہ ترقی ششماہی دورانئے میں وصول پائی۔

میرے مضامین کے نشانے پر ہر خاص و عام ہوگیا، اربابِ اقتدار و اختیار میں مشہور میرا نام ہوا۔ داد و تحسین کا وصول کرنا روزوشب کا معمول تھا اور تحفے تحائف اُس پر مستزاد۔ یقین جانو بادہ جانفزا کی بہم رسانی تک بلا تردّد و بِلا قیمت۔

دو برس ہی گزرے تھے کہ ایک شام صاحب کا سرنامہ وصول پایا کہ محکمہ اُن کا برقی خبررسانی میں یدِ طُولیٰ رکھتا ہے اور میری شعلہ بیانی کا مستقل آرزو مند ہے، ماہوار مشاہرہ چار گُنا بمعہ موٹرکار و دیگر سہولیات دینے کو تیار ہے میں بہ مسرّتِ تمام ریل میں بیٹھ کر روانہ ہوا اور مافی الضمیر فروشی کی حجت کو بلا دقتِّ تمام قبول کیا کہ محکمہ ہذٰا نمک خواری کی مد میں زرِ کثیر یہاں وہاں سے وصول پاتا ہے۔

 اب میں ہر شب میدانِ سیاست کے شہسواروں کو مدعو کرتا ہوں اور زبان سے اُن پر توپ چلاتا ہوں، سبحان اللہ کیا توپ، جس کی آواز سے رعد کا دم بند اور نفرتوں کی کونج سے بجلی کو رنج۔ گولہ اس کا عوام کا قہر، دھواں اس کا انقلابات کی لہر، استغفراللہ، کیا باتیں کرتا ہوں، جھوٹ سے دفتر بھرتا ہوں۔ اب بارود ہو تو رنجک اُڑے، آگ دہکائیں تو دھواں ہو، گولہ چھرا کچھ اُس میں بھریں تو ظاہر میں کہیں نشان ہو۔ صرف آواز پر مدار ہے۔ نئی ترکیب اور نیا کاروبار ہے۔

فقط ایک گھنٹہ حاکمِ وقت کی مدح سرائی میں صرف کیا اور عزت میں وہ پایا جو تمہارے وقتوں میں رئیس زادوں کے واسطے بھی نہ ہوتا تھا۔ ایک قطعہ زمین بطور نذرانہ، میری فرود گاہ ڈیفنس میں واقع ایک کاشانہ ہے- قطعہء زمین کاروباری چہار صد گز اُس سے سِوا ہے۔

مملکت کے کیا اطوار ہیں، ہمیں اِس سے کچھ سروکار نہیں۔ ہمیں تو غرض مصالحے سے ہے۔ سو شب و روز بناتے ہیں اور عوام الناس دھڑا دھڑ لئے جاتی ہے۔ جس دستار کے پیچ و خم چاہیں، آن کی آن کی میں کھول کر رکھ دیتے ہیں۔

یادش بخیر، قاطع برہان کے باب میں تمہی نے تو لِکھا تھا، “آن ہم ظریفانہ و حریفانہ بہ بذلہ و لطیفہ، نہ مخنثانہ و ففیہانہ بہ فحش و دشنام“

رسوایانِ غالب و مغلوب ایک ہیں

منشی نول کشور جیسے بہتیرے اپنے مطبع میں میری کتب چھاپنے کے خواہاں اور جملہ حقوقِ مصنف کی پیشگی ادائیگی پر آمادہ ہیں مگر مجھے ملاقات کی فرصت نہیں، تمہارے طریق پر چلتا تو نا آشنائے عہد بن جاتا اور ہنوز اسدِ خستہ جاں کہلاتا اور لاشِ بے کفن کی پریشانی اُس پر مستزاد۔

یہ عرض مقبول اور یہ گستاخی کہ بار بار آزار دیا، معاف ہو، خدا جانے قلم سے خط کیونکر کھنچ گیا؟ اب حواس بجا نہیں، نشہء نخوت و خود پسندی میں سرشار ہوں، اکثر الفاظ بے قصد لکھ جاتا ہوں، کہاں تک حرافت نہ آئے، اِس کلام کا گنہگار اور حضرت سے شرمسار ہوں، معاف کیجئے گا، زیادہ حدِّ ادب۔

کافر ادا جعفر

لِکھنے لِکھانے کے شوقین شخص کیلئے کسی اچھے لکھاری کے بارے میں کچھ لکھنا ایسا ہی جیسے ایک عورت کا دوسری عورت کے حُسن کی تعریف کرنا۔ یوں تو تنقید نِگاری کبھی بھی عاجز کا میدان نہیں رہا کہ اِس دشت کی سیاحی میں لفظوں کی خاک چھاننا بُہتیرے حضرات کے لئےکبھی بھی ذریعہ عزت نہیں رہا۔ دیکھئے مقطع میں ہی کیسی سخن گسترانہ بات آ پڑی کہ اردو ادب میں، چند ایک کو چھوڑ کر، بیشتر نقادوں نے ایسی بانجھ عورت کا کردار ادا کیا ہے جو دوسروں کے جنے ہوئے بچے اُٹھا اُٹھا کر بغور دیکھتی ہے اور اس سارے عمل میں اس بات کا دھیان رکھتی ہے کہ کسی بھی مرحلے پر مامتا چھلکنے نہ پائے۔ اور ہماری دیدہ دلیری ملاحظہ کیجئے کہ ہم نے رضاکارانہ طور پر یہ خدمات پیش کی ہیں۔

اِس سے پہلے کہ ہماری تحریر جملہ ہائے معترضہ کی زد میں آکر بوجھل ہوجائے، آئیے بات کرتے ہیں اُن حضرت کی جنہیں سبھی خاص و عام اُستاد جعفر حُسین کے نام سے یاد کرتے ہیں

یوں تو جعفرحسین کی عِلّتِ بلاگ نگاری پر ہم جیسے کی تبصرہ نگاری کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی گڑوی والی ملکہءترنم کے اوصاف و محاسِن پرگفتگو کی کوشش کرے۔ ہم شاید ایسی جرات نہ کرتے مگر جب سے گڑوی والیوں نے جسٹن بیئبر پر ہاتھ صاف کیا ہے تب سے ہمیں بھی اپنے اِرادے پر کوئی ندامت محسوس نہیں ہو رہی۔

جعفر حسین الفاظ کا لکھاری نہیں، احساسات کا لکھاری ہے، جعفر حسین ایسا مداری ہے جو ڈگڈگی بجاتے بجاتے گھڑی بھر کے لئے اچانک سے ڈُکڈُگی آپ کو تھما دیتا ہے  اور آپ اسی ایک لحظہ میں سرمستی کی سی کیفیت میں جا ڈوبتے ہیں، جعفرحُسین کے بلاگز میں کوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی زبان نہیں مِلتی مگر اس کی قادرالکلامی پر کوئی شبہ نہیں ہوتا چاہئے، زورمرّہ کے استعمال پر اِسے ایسی قُدرت ہے کہ ایک کئی فقروں پر یہی گُمان گُزرتا ہے کہ ارے یہ تو میرے دِل کی بات کہہ دی- فیصل آباد سے تعلق پر جعفر حُسین کو ناز ہے اور فیصل آبادی مٹی کی مہک اُس کے قلم کے پور پور میں رچی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کو تحریر میں فیصل آبادی محاورے کی دِل نشیں جھلکیاں بھی ملیں گی-جعفرحُسین اس لحاظ سے بڑا کافر ادا لِکھاری ہے کہ اپنی کہانی میں وہ آپ کو کتنے ہی گلہائے دِل فریب دِکھا ڈالے، کہانی کے بیچ میں اچانک سے آپ کو اپنی مٹّی کی خوشبو کا جھونکا ضرور دے گا

جعفرحُسین بڑا فنکار لکھاری ہے، کردار کی اوٹ میں چُھپ کر نفسیات کا مشاہدہ کرلیتا ہے اور اِن دونوں کو باہم گوندھ کر ایسے بیان کردیتا ہے کہ کردار کے قاری کو کردار کی کہانی مِل جاتی ہے اور نفسیات کے قاری کو نفسیات کا نکتہ ہاتھ لگ جاتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کی خبر تک نہیں ہو پاتی۔ موضوعات کا تنوع اور کرداروں کی جاذبیت ایسے اوصاف ہیں جو بلاگ نِگاری کے میدان میں خال خال ہی دیکھنے کو مِلتے ہیں مگر موصوف نے اِس ضمن میں بھی کِسی قسم کی تنگ دامنی کو آڑے نہیں آنے دیا، ہماری ذاتی رائے میں اس فیاضی کا راز جعفر کے عمیق مشاہدے اور اُتنے ہی حسّاس دل میں پوشیدہ ہے

بابوں کا المیہ ہو یا دسمبری دُکھڑا، محبت کا فنڈا ہو یا توند اور تقویٰ، جعفر حُسین آپ کو انگلی پکڑا کر کُشاں کُشاں کرداروں کے چوراہے میں لے آتا ہے اور مشاہدات کی گٹھڑی بیچ چوراہے میں کھول کر اپنی اُنگلی چُھڑا کر آپ کو اکیلا چھوڑ دیتا ہے۔ ہر نظر دیکھنے پر ایک نیا منظر دِکھائی دے گا۔ اگر یقین نہ آئے تو جعفر حُسین کا کوئی بھی بلاگ ایک دو ہفتے کے وقفے سے چار یا پانچ مرتبہ پڑھ کر دیکھ لیجئے، آزمائش شرط ہے

یہ تمام بلاگ اس بات کا کُھلا ثبوت ہیں کہ لکھاری کا ادب سے نہ صرف بڑا پُرانا رشتہ ہے بلکہ لکھاری کا مطالعہ بھی نہائت گہرا اور وسیع ہے۔ مگر اس کے باوجود اس کی تحریر آپ کو بوجھل نہیں کرتی- یوں بھی جعفر حُسین بنیادی طور پر ایک روائت شِکن لکھاری ہے جسے نئی نئی تراکیب کی اختراع میں یقیناً بڑی لذت ملتی ہوگی اور وہ اپنے قارئین کو بھی اِس لذت سے محروم نہیں رکھتا- کچھ تراکیب کو جعفر کی زبان میں پڑھیں تو اُن کا نشہ دوآتشہ اور کہیں کہیں سہ آتشہ بھی ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ تراکیب ملاحظہ کیجئے

“گھمسان کا گھڑمَس“ –

“ظلم ہائے زوجہ کے سامعین“ –

اب کچھ فقرے ملاحظہ کیجئے، اِنہیں پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ دلچسپ حقائق لفظوں کے کھونگھٹ اوڑھے بیٹھے ہیں

اصلی تے سُچی محبت وہ ہوتی ہے جو ضرورت پوری ہونے کے بعد ہو

باپ ہمیشہ غلط ہوتا ہے، ماں چاہے جتنی بھی غلط بات کررہی ہو، اولاد کی نظر میں وہ ٹھیک ہوتی ہے

رنگ گورا کرنے کی جدوجہد میں اِس خطے کے مکین ازمنہ قدیم سے مصروف ہیں

یہ فقرے کتنے درست ہیں اور کتنے غلط، اِس کا فیصلہ ہم آپ کی ایماندارانہ صوابدید پر چھوڑتے ہیں۔ اگرچہ موصوف نے اپنے بلاگیاتی مجموعے کے ضمن میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ دِل جلوں کیلئے مرہم ہے مگر ہم اپنی طرف سے اتنا اضافہ کئے دیتے ہیں کہ ایسا کہنا آسودہ دِلوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے کیونکہ “حالِ دل“ کے مطالعے کے بعد اگر کوئی غافل آسودہ دِل بیداری کی جھپکی لے لے تو اُس کی تاثیر مرہم سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔

طوالت مانع ہے، اس لئے آخر میں ایک تشنہ پہلو کی طرف اشارہ کرنا ہم پر لازم ہے وہ یہ کہ اس قدر روانی کے ساتھ لکھنے کے باوجود جعفر حُسین نے اُس کیفیت پر نہیں لِکھا جو اُس نے اپنی ذات پر جھیلی ہے اور ابھی نجانے کب تک اُسے یہ روگ بھوگنا ہے اور یہ درد سہنا ہے، وہ موضوع ہے مسافرت اور غریب الوطنی۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کیفیت کا بیان بذاتِ خود ہر قسم کے مرہم سے بے نیاز ہوتا ہے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت جعفر حُسین کے قلم میں مزید برکت دے اور دِل جلوں کے ساتھ ساتھ آسودہ دِلوں کیلئے مرہم بہم پہنچانے کی توفیق میں اضافہ فرمائے، آمین

بچہ جموُرا – ایک ہی ایکٹ کا ازلی ڈرامہ

اقوامِ عالم کی بھیڑ ہے، زندہ اقوام، مُردہ اقوام، متمول و مُفلس، آزاد اقوام، غلام اقوام، سچ مُچ کی غیرت مند اور غیرت کی محض دعویدار اقوام، سازشی و شرارتی اقوام ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ بڑی قوموں کے بیٹھنے کیلئے آرام دہ صوفے لگے ہیں اور انکی زیرِ دست اقوام کے نمائندے اپنی اپنی غرض کے مورچھل سے حاکم قوموں کی اناؤں کی ہوا کا انتظام بہم پہنچا رہے ہیں۔ چند قوموں کیلئے کرائے کی کُرسیوں کا اہتمام کیا گیا ہے، پیدل قومیں کھڑی ہیں اور معذور قومیں زمین پر اکڑوں بیٹھ کر تماشہ گاہ پرنگاہ رکھنے کی بجائے نہ جانے کِن خیالات میں گُم ہیں۔

مجمعے کے اطراف میں جگہ جگہ میڈیائی نمائندے درد کی دلالی کیلئے کیمرہ بستہ ہیں اور اس فکر میں ہیں کہ ہر ایک کو تماشے کا وہی کرتب دکھانے کی اجازت ہے جسکی آقاؤں نے فرمائش کی ہے، ایک طرف عالمی اداروں کے نمائندے فائلیں سینے سے لگائے کھڑے ہیں، ان فائلوں میں تمام مداریوں اور جموروں کے جملہ کوائف تفصیل اور صراحت کے ساتھ موجود ہیں، جگہ جگہ تماشہ ہورہا ہے اور ایک طُرفہ تماشہ شروع ہوا چاہتا ہے، مجمعے میں چہ میگوئیاں جاری ہیں اور مداری ڈگڈگی لئےمیدان میں آگیا ہے جہاں بچہ جمورا پہلے سے بے سُدھ پڑا ہے

بچہ جموُرا

اللہ اللہ

بچہ جموُرا، توُ کون؟

میں غریب عوام

بچہ جموُرا تیرا کام کیا

غلامی

تیرا خواب کیا؟

حکمرانی

تیرے خواب کی تعبیرکیا؟

حیرانی، بدگمانی

بچہ جموُرا، کب سے؟

ازل سے

یہی ہے تیرا کام جموُرا، ازل سے تیراخواب ادھورا، اِدھر کو دیکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈگڈگی پر ناچ کر دِکھا، شاباش شاباش جمورے، سوچتا کچھ توُ کاش جموُرے، رہتے نہ یوں خواب ادھورے،ناچ ناچ ناچ

بچہ جموُرا؟

اللہ اللہ 

ذرا ایک دم کو سانس لے، اور اگلے سانس میں سارے عالم کے مجمعے کو بتا دے تیرے کارنامے کیا ہیں، بول، راز کھول، دنیا گول، ترا کشکول پیارے، بول پیارے،چل اب دنیا کو بتادے کہ توُ کہاں کہاں دِکھتا ہے؟

دیکھو دیکھو میں دِکھتا ہوں، ہرجا، ہرقرن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر دور ہے میرا دور پیارے، اہرامِ مصر کی گردابوں سے، تاج محل کی محرابوں تک، میرا خوُن دِکھائی دے گا، میرا شور سُنائی دے گا، میرے دم سے محل منارے، میرے دم سے عیش تمہارے

بچہ جموُرا، یہیں پہ رُک جا، مجمع صرف تماشہ دیکھا کرتا ہے، داستانیں نہیں سُنا کرتا، اپنی محرومیاں بیان کر اورخالی کشکول کا دھیان کر، ارے موُرکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر سے بول، لبوں کو کھول

ہائے ہائے، ظلم ہوا ہے، بد قسمت ہے میری ہستی، لُٹتی ہے میری ہر بستی، منگولوں سے تاتاروں تک، عہدِ مغل کے درباروں تک، شاہ زادوں اور زرداروں تک، سب نے رکھا مُجھ کو بھوُکا، مجھ کو میرے خواب دِکھا کر، چھینا مُجھ سے روکھا سوُکھا، جب بھی اپنا حق مانگا ہے، سب نے میرے منہ پر تھوُکا!

بچہ جموُرا، خبردار، ہوشیار، مجمعے میں بڑے بڑے صاحبانِ اختیار و ذی وقار کھڑے ہیں، ان کا مزہ خراب کرتا ہے، کاہے کو؟ ارے نادان، پکڑ گردان، محرومی کی، ناداری کی، بھوک کے غم کی، بیماری کی، اور پھر دیکھ، یہ رحم والے انسان دوست تجھے تیری اوقات سے بڑھ کر دیں گے، اِک دوجے سر چڑھ کر دیں گے

کیسے بولوں؟ کس کو بتاؤں؟ کس کو دل کا حال سناؤں؟ ننگے تن پر سب دِکھتا ہے، کس کو روح کا زخم دکھاؤں؟ میری غُربت ہی ٹھہری مول میرا، مری دولت فقط کشکول میرا، میری مشکل آساں کردو، پھر سے اس کشکول کو بھر دو

بڑی اقوام کشکول میں اتنی اتنی دولت ڈال دیتی ہیں کہ کشکول خالی بھی نہ رہے اور پورا بھی نہ بھرے، اس فیاضی کے بعد تمام بڑی اقوام حقارت سے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور مجمعے سے جانے لگتی ہیں، پیدل کھڑی اقوام ان کو جھک کر ادب سے راستہ دیتی ہیں، ان کے جانے کے بعد دیگر اقوام مداری سے اظہارِ ہمدردی کیلئے اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دے کر جمورے سے اپنی ہمدردی جتاتی ہیں اور اس کی حالت بدلنے کیلئے اپنے تعاون کی پیشکش کرتی ہیں، مداری خوشی میں سر ہلاتا ہے اور پھر ڈکڈگی بجا کر جمورے سے کہتا ہے

شاباش جمورا، تیرا کشکول بھرگیا، دیکھ تیری خاطر کیا کیا جتن نہیں کئے میں نے، تیرے لئے ان سب کے سامنے کھڑا ہوکر اپنا حال سنایا اور دیکھ تجھ سے کیا چھپا ہے؟ دیکھ سب کو کتنا درد ہے تیرا، ادھرآ یہ کشکول کی دولت مجھے پکڑا، میں نے تیری راحت کے جو خواب دیکھے ہیں، اسی دولت سے ان کی تعبیر ملے گی

بچہ جمورا خاموشی سے کشکول مداری کے آگے کردیتا ہے، مداری کشکول کو خالی کرکے اسے جمورے کے ہاتھ میں رہنے دیتا ہے اور پھر کچھ سکے اسکی طرف اچھال کر کہتا ہے، یہ لے جمورے، اس پر تیرا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا میرا، جمورا خالی آنکھوں سے آسمان تکتا جاتا ہے اور مداری ہجوم کے ساتھ مل تھوڑی دور جاکر کھڑا ہوجاتا ہے جہاں ایک اور تماشہ شروع ہونے کو ہے

جمورا مداری سے بددل ہوگیا ہے اور سوچ رہا ہے کہ آنے والا اگلا مداری نہ جانے کیسا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ ڈرامہ آپ کی خدمت میں چند بڑی اقوام، بین الاقوامی اداروں اور بہت سی غافل اقوام کے تعاون سے پیش کیا گیا

کرکٹ، بہ زبانِ اُردوُ

کرکٹ کے کھیل سے کم و بیش ہر پاکستانی کی وابستگی ہے۔ کھیلنے والے تو روزبروز کم ہوتے چلے جارہے ہیں مگر دیکھنے والوں کی شرحِ تعداد ہماری آبادی کی شرحِ افزائش کے عین متناسب ہے۔ تحریر کے آغاز میں اس امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ سطورِ مندرجہ میں کرکٹ کے اوصاف و محاسن بیان کرنا ہرگز مقصود نہیں۔ مضمون کا اصل مدعا کرکٹ اور اردو زبان کی باہمی رغبت کے مقامات کا تذکرہ ہے۔

ایک دن یونہی تذکرہ چل نکلا کہ کرکٹ میں استعمال ہونے والی تمام تر اصطلاحات انگریزی زبان میں ہی مروّج ہیں، اگر ان اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کردیا جائے تو ممکن ہے خدمت کی کوئی صورت نِکل آئے۔

 اس خواہش کی تکمیل کیلئے جب کچھ چیدہ چیدہ اصطلاحات کا ترجمہ کیا گیا تو ہم پر یہ منکشف ہوا کہ اچھائی کی بجائے اس ترجمے میں خرابی کی تمام صورتیں مُضمر ہیں۔ مثال کے طور پر ‘سِلی پوائنٹ‘ کو ہی لیجئے، اگر کپتان کسی کھلاڑی کو اردو میں ‘نقطہء نامعقول‘ پر کھڑا ہونے کا کہہ دے تو بتائیے کون دیوانہ ایسے نامعقول مقام پر کھڑا ہونے کو تیار ہوگا؟

اس کے بعد چلتے ہیں سلِپ کے فیلڈرز کی جانب، پہلی، دوسری اور تیسری سلِپ کو بالترتیب پہلی، دوسری اور تیسری پھسلن کہنے سے کھلاڑی کی کردار کشی کے تمام تر مواقع میسر آجاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ فلاں فیلڈر پہلی پھلسن پر کھڑا ہے تو ہم جیسوں کو یہی گمان گزرے گا کہ فیلڈنگ پوزیشن بتانے کی بجائے ناحق بیچارے کی پہلی محبت پر طنز کیا جارہا ہے، اسی طرح دوسری پھسلن پر کھڑے ہونے والے بدنصیب کے بارے میں سب کو یقین ہوگا کہ دُکھیا کی پہلی پھسلن یا تو ناکام ہوگئی ہے یا اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے، دل میں فورا ہمدردی کے جذبات غالب آجائیں گے، مگر تیسری پھسلن پر کھڑے ہونے والے کیلئے، خواہ وہ کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو، کوئی ہمدردی سے سوچنا گوارا نہ کرے گا کہ ہمارے ہاں بدمعاش مردوں کیلئے یہ نمبر بڑی توجہ کے لائق سمجھا جاتا ہے۔ اردو کمنٹیٹر اگر سلپ فیلڈر کی تعریف کرتے وقت یہ کہہ دے کہ موصوف کی نظر پھسلن کے معاملے میں بالکل نہیں چوُکتی تو زیادہ خواتین والے گھر میں ٹی وی پر کرکٹ میچ کے ساتھ ساتھ اس کھلاڑی کا نام لینے پر بھی پابندی لگ جانے کے قوی امکانات ہیں

انہی مقاماتِ آہ وفغاں سے بچ بچا کر جب فیلڈنگ کے دیگر مقامات پر نظر دوڑائی تو ایک طویل فہرست ہنوز باقی تھی

 مزید    فیلڈنگ   کا  سامنا   تھا  منیر  مجھ   کو

میں ایک فیلڈرسے بچ کےنکلا تو میں نے دیکھا

  ‘فائن لیگ‘ کا ترجمہ کرنے کیلئے ہمیں بڑی سوچ بچار سے کام لینا پڑا اور ذہنی جگالی کے بھرپور اہتمام کے بعد ‘زانوئے لطیف‘ ‘فائن لیگ‘ کا موزوں ترین ترجمہ قرار پایا۔ کہنے کو تو لفظ نے اردو کا پیراہن زیب تن کرلیا مگر دشتِ شعور سے صفحہء قرطاس پر منتقلی کے بعد جب مزید غور کیا تو تخیل کا شعبدہ گر، امکانات کی بانہوں میں بانہیں ڈالے بہت دور جا نکلا۔ زرا تصوّر کیجئے، اگر زانوئے لطیف کو اس کے معنوی پیرائے میں دیکھا جائے تو اس میں تین خرابیوں کا بھرپور امکان ہوگا۔ اوّل یہ کہ کھلاڑی کو مسلسل اس جگہ پر کھڑے رہنا ایک نہائت غیررومانوی اور ظالمانہ فعل محسوس ہوگا، دوئم، ایسے لطیف مقام پر موجود رہ کر کسی اور (یعنی بلّے باز) کی حرکات وسکنات کا دھیان رکھنا انتہائی درجے کی ناشکری اور سست روی کے زُمرے ہیں آئے گا۔  تیسری اور سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس مقام سے بخوبی آگاہی کے بعد کھلاڑی اپنے جیتے جی کسی اور کو اُس جگہ کھڑا کرنے پر ہرگز راضی نہ ہوگا تاوقتیکہ اسکا اپنا انتقال نہ ہوجائے اور تدفین کیلئے وصیت میں کسی اور مقام کا تعین ہو۔ ‘فائن لیگ‘ کو ‘زانوئے لطیف کہہ کر دیکھ لیجئے، سننے والا چشمِ تصوّر میں کھیل کے میدان سے نِکل کر کسی ایسی جگہ جا پہنچے گا جہاں اچھی کارگردگی پر تالیاں تک نہیں بجائی جاسکتیں۔

 ایک اور قباحت یہ سامنے آئی کہ اگر فیلڈر کو انگریزی کے ‘ڈیِپ پوائنٹ‘ کی بجائے اردو کے ‘نقطہءعمیق‘ پر کھڑا کردیا جائے تو ایسی صورت میں سیاستدانوں، کرکٹ بورڈ کے اہلکاروں اور چند مشہور صحافیوں کے کھڑے ہونے کیلئے جگہ باقی نہیں بچتی۔ کرکٹ بورڈ کے اہلکاروں کو تو حیل و حجت سے اس مقام سے دوُر رہنے کیلئے راضی کیا جاسکتا ہے مگر سیاستدان اور (کچھ) صحافی حضرات اس قربانی پر ہرگز آمادہ نہ ہوں گے۔

اسی طرح جب ‘تھرڈمین‘ کا ترجمہ ‘مردِ ثالث‘ کردیا جائے تو میدان میں بیٹنگ کرنے والے پہلے اور دوسرے مرد کی غیرموجودگی بڑی ناگوار گزرتی ہے۔ بعید نہیں کہ فیلڈنگ اور امپائرنگ کرنے والے دیگر تیرہ مرد، کمنٹیٹر پر ہتک عزت کا دعویٰ کردیں ۔ اگر بالفرضِ محال پہلے اور دوسرے مرد کی موجودگی کی کوئی صورت نکال بھی لی جائے تو تیسرے یعنی تھرڈ مین کے بلاوجہ آنکھوں میں کھٹکنے کا احتمال ہے۔ معاملہ اگر مردوں تک ہی محدود رہتا تو کوئی تدبیر لڑائی جاسکتی تھی لیکن صورتحال اس وقت یقینا بڑی سنگین ہوجائے گی جب کرکٹ کھیلنے والی خواتین کو بھی اسی مقام یعنی ‘مردِ ثالث‘ پر کھڑے ہوکر فیلڈنگ کرنی پڑے گی، اس مقام پر کھیلنے کی غرض سے کھڑے ہونے کیلئے بیچاری پاکستانی خواتین کو اپنے منگیتر یا شوہر سے این۔ او۔ سی تو لازمی لینا پڑے گا

جو گیند کرکٹ میں خراب سمجھی جاتی ہے، اگر اردو زبان میں ترجمہ کردی جائے تو مزید خراب لگنے لگتی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو ‘وائیڈ بال‘ کو ‘زائدالعرض‘ کہہ کر ایمانداری سے بتائیے کہ ذہن میں کپڑوں کی دکان، درزی، پردوں کی خریداری اور سلائی مشین آتی ہے یا نہیں؟ اردو ترجمے کے جملہ صوتی اسقام و نقائص پر غورکرتے کرتے معا ہمارے خیال میں ‘مِڈ وکِٹ‘ کا مقام آگیا، اس پر طبع آزمائی کی تو صورتِحال کو‘زائدالعرض‘ سے بھی زیادہ گھمبیر پایا۔ جب ‘مِڈ وکِٹ‘ نے ‘نصف الطول‘ کا اردو پہناوا پہن لیا۔ ‘نصف الطول‘ کا صوتی تاثر پکار پکار کر اطلاع دیتا ہے کہ بیچارہ فیلڈر زمین کی بجائے نوکِ سناں پر کھڑا ہے۔

شائقین کرکٹ کیلئے یہ امر بھی لائقِ توجّہ ہے کہ ایسی مترجم سازش کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی ناکامی کا ذمہ دار،بُری کارگردگی کے علاوہ خراب کمنٹری کو بھی ٹھہرایا جاسکے گا جو ہمیں تو بہرحال ایک اچھی روایت معلوم ہوتی ہے۔ ‘

یوں تو ہمیں بھی یہ خواہش ہے کہ ہماری قومی ٹیم آئندہ سال ہونے والا ورلڈ کپ جیتے مگر ان مترجمانہ صعوبتوں سے گزرنے کے بعد ہم پر یہ عقدہ کُھلا کہ ایسی ثقیل فیلڈنگ کی بدولت تو ایک میچ جیتنے کا امکان بھی باقی نہیں رہے گا۔ یوں تو ہماری ٹیم کی فیلڈنگ اکثر اوقات بڑی خراب ہوتی ہے لیکن اگر ترجمہ شدہ اصطلاحات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یقین کیجئے دنیا کی ہر ٹیم کی فیلڈنگ ناقص ہی لگے گی۔

ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا، یار،یہ تھرمامیٹر کا اُردو ترجمہ کیا ہوتا ہے؟

دوست نے جواب دیا، ‘آلہءمقیاسِ حرارت‘

پہلا دوست تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولا، ‘یار،میرا خیال ہے کہ یہ انگریزی میں ہی ٹھیک کام کرے گا‘۔

ساتھیو، ہم بھی یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ کرکٹ کا تھرمامیٹر بھی انگریزی میں ہی صحیح کام کررہا ہے، اگر اسے اردو میں استعمال کیا گیا تو یہ درجہ حرارت بتانے کی بجائے بلڈ پریشر ہی بتائے گا

عرضِ مُصنِّف:

مضمون تو خاصا طویل لکھا گیا تھا مگر بلاگ کی طوالت کے خدشے کے پیشِ نظر اس واردات کے چیدہ چیدہ حصّے منتخب کئے گئے ہیں، دیگر مقاماتِ آہ و فغاں کا مفصّل بیان کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں

حروفِ دشنام

گالی ایک ایسا تجربہ ہے جس سے اس دنیا میں بسنے والے عام انسان کسی صورت مستثنیٰ نہیں رہ سکتے، بزرگ فرماتے تھے کہ لذتِ کام و دہن سے آشنائی کے بعد انسان کو سب سے زیادہ مزہ بخشنے والی شے گالی ہے۔ دشنام طرازی ہر معاشرے کے ہر دور میں ایک موزوں وسیلہء اظہار کے طور پر عالمگیر سطح پر اپنی اہمیت منوا چکی ہے۔ ہر قوم نے اپنی اپنی فکری بساط کے مطابق گالیوں کا ایک معقول ذخیرہ آنے والی نسلوں کیلئے چھوڑا اور یہ واحد سلسلہ ہے جسے نئی آنے والی ہر نسل نے ارتقاء کی نئی بلندیوں سے رُوشناس کروایا۔ ہمیں تو جب سے معلوم ہوا ہے کہ دشنام طرازی لغو ہوتی ہے تب سے کسی بھی لفظ کے لغوی معانی دیکھنے کی جرات نہیں ہوسکی، خواہ وہ کتنا ہی لغو کیوں نہ ہو

جیسے کئی علوم سینہ بہ سینہ چلتے ہیں،شعلہ کلامی کا یہ سلسلہ بھی کینہ بہ کینہ ہی چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے اثرونفوز میں کبھی کمی نہ آسکی

جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے بھی گالیوں کے مخصوص اوصاف ہیں، فرانسیسی گالیاں کان لال کرتی ہیں تو ہسپانوی گالیاں گال لال کرنے میں مجرّب ہیں۔ انگریزی گالیاں چہرہ لال کرتی ہیں جبکہ اردو اور پنجابی گالیاں آنکھیں لال کرتی ہیں اور آنکھوں پر ہی کیا موقوف، ان کی مدد سے ایسے ایسے نہاں مقامات بھی لال ہوجاتے ہیں جن کے بیان اور نشاندہی سے عاجز بوجوہ معذور ہے۔ ایسے ہی قبیح الفاظ اگر کسی فارسی بزرگ کے منہ سے سن لیں تو لگتا ہے گویا پندونصائح کا دریا موجزن ہے، برا ماننے کی بجائے سر دُھننے کو جی چاہتا ہے۔

کسی زمانے میں تو اس قدر مسجع و مقفع طریقے سے گوش گزار کی جاتی تھیں کہ دشنام الیہ سن کر ناراض تو درکنار، بے مزہ تک نہ ہوتے تھے، کسی اور کا ذکر کیا کریں مرزا غالب جیسی شخصیت نے ان حقائق کی تائید میں کہہ دیا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں  کھا   کے   بے   مزہ  نہ  ہوا

ناقدین اسے جملہء معترضہ بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ ان کا اور غالب کا ذاتی معاملہ ہے

مغرب میں گالیاں صورتِ حالات کے نتیجے میں دی جاتی ہیں مگر برصغیر پاک و ہند میں ان کا مقام روزمرّہ زندگی کے اہم ترین معمولات میں شامل ہے اور لڑائی کے دوران اسے معتوب کو غیرت دلانے کی بجائے اختلافی فقروں میں خوبصورتی پیدا کرنے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے۔

تبادلے کی صورت اگر زبانی ہو تو طرفین کی جانب سے گرامر،روزمرّہ و محاورہ، وزن اور تذکیروتانیث کی نزاکتوں کو مدِّ نظر رکھنا کاہلی اور کم علمی کے زمرے میں آتا ہے۔ تحریری معاملے میں البتّہ صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے، دورانِ تحریر، راقمِ دشنام، وصول کنندہ کے مرتبے، خاندان کے علاوہ اس کی معاشی و کاروباری اور پیشہ ورانہ حیثیت کو مدِّنظر رکھنے کا التزام کرتا ہے اور سیاق و سباق کے پیشِ نظر ان موزوں گالیوں کا انتخاب کرتا ہے جس سے وصول کنندہ کا پندارِ انا، غصّہ اور جواب دینے کا حوصلہ مجروح نہ ہونے پائے۔ مشاہدے سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پڑھے لکھے اور نفیس مزاج کے لوگ جاہل اور گنواروُ قسم کی گالیوں پر بالکل کان نہیں دھرتے بلکہ آدمی جتنا سوفسٹی کیٹڈ ہو اسے بالرتتیب حیرانی، غیرت اور غصّہ دلانے کیلئے ویسی ہی سوفسٹی کیٹڈ گالیوں سے دعوتِ غضب دی جاتی ہے

چالاک لوگ پڑھے لکھے آدمی کو دو سے زائد گالیاں نہیں دیتے کیونکہ ایسے لوگوں میں پہلی گالی پر حیرانی، دوسری پر ہیجانی اور تیسری گالی کے بعد ہذیانی کیفیت طاری ہوتی ہے اسلئے دونامناسب حروف کے مناسب انتخاب سے معاملہ قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔

ماضی قریب میں منہ سے مغلظات (جن کی کثرت سفوُفِ مغلظ کے استعمال پربھی منتج ہو سکتی ہے) کا دریا بہانے کیلئے کسی نہ کسی نامعقول وجہ کے ساتھ ساتھ طبیعت کی نا معقولیت ایک لازمی شرط تھی مگر آج کے جدید دور میں لغویات میں قادرالکلامی کیلئے صرف ایک ٹویٹر اکاؤنٹ اور ایک سیاستدان درکار ہوتا ہے، غیر سیاسی حضرات کیلئے یہی پیشکش ثانی الذکر کو کسی بھی مخالف سے تبدیل کرنے کے بعد جوں کی توں برقرار رہتی ہے، اس حوالے سے سائنس کی افادیت کے تو ہم بھی قائل ہو چکے ہیں

 پڑھے لکھے لوگ چونکہ سرِّعام گالیاں دینے کو معیوب سمجھتے ہیں اسلئے وہ اپنے ناآسودہ جذبات اور نامکمل خواہشات کے اظہار کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیتے ہیں، پہلے پہل ان کا سلسلہء تخاطب سیاسی لیڈروں تک محدود رہا مگر رفتہ رفتہ ان لیڈروں کے کارکنان اور مداحین کو بھی اس محبت کے قابل سمجھ لیا جاتا ہے، اب یہ سلسلہ انفرادی نہیں بلکہ گروہی شکل اختیار کرگیا ہے، ایک گروہ اپنی تمام تر غلاظتی توانائیوں کو برروئے کار لاکر مخالفین کو ایسی ایسی گالیوں سے نوازتا ہے کہ ہر گالی اپنے مطالب میں گنجینہءاسرار کا طلسم لئے ہوتی ہے اور غوروفکر کرنے پرایک ایک لفظ سے دعوتِ ترغیب عیاں ہوتی ہے۔ ایسے معاملات میں سوقیانہ پن، کثافت اور برہنگی کی شرح، بلحاظِ شرحِ خواندگی بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس مقام پر جا پہنچتی ہے جہاں حسرتیں شجرہء نسب میں داخلے کو بے قرار ہوتی ہیں اور بلااجازت مختلف شجرہ ہائے نسب کو آپس میں خلط ملط کردیتی ہیں۔ شجرہء نسب جیسا بھی ہو، خواتین کی شرکت و معاونت کے بغیر تکمیل نہیں پاسکتا اسلئے بعض خواتین بھی اس معاملے میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی دیکھی جاتی ہیں اور مساوات کے اصولوں کی ایسی زندہ مثال فی الحال کسی اور شعبہء زندگی میں دیکھنےکی ہمیں تو حسرت ہی ہے۔

اپنے جذبات کے ناقابلِ اشاعت اظہار کیلئے الفاظ کے ایسے ناگفتنی انتخاب پر ہمیں بظاہر تو کوئی اعتراض نہیں کہ الفاظ سچ میں ہمارے ظرف کا اصل پہناوا ہوتے ہیں مگر ہمیں اصل قلق اس بات کا ہے کہ ہم جو کام سنِ بلوغت سے گزرجانے کے بعد بھی بالترتیب شرماتے، گھبراتے اور سٹپٹاتے ہوئے کیا کرتے تھے، نئی نسل کے نوجوان دشنام طرازی کے وہی شاہکار ہنستے کھیلتے، بلا دقّت و جھجک ایسی روانی سے تخلیق کئے جارہے ہیں کہ بخدا اپنی کم مائیگی پر احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کو جی چاہتا ہے۔

صاحبو، ہم تو پرانی نسل کے بزرگوں سے آج بھی پوچھتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں کیا دیا؟ مگر آنے والی نسلوں کو ہم سے اتنا پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرنی پڑے گی کہ ہمارے اخلاق و کردار کے تمام ثبوت اشاعت شدہ شکل میں دستیاب ہوں گے اور ہماری تردید کی تمام تر کوششوں کا اثر اتنا ہی ہوگا جتنا ہمارے بزرگوں کی وضاحتوں کا ہوسکا۔

اپنی زبان کے انگاروں سے جہنم مت تخلیق کیجئے، نفرتوں کے فولادی عفریت کو ٹکڑا ٹکڑا برداشت کے سانچے میں ڈال کر محبتوں میں ڈھالنے کی سعی کیجئے

کام تھوڑا کٹھن ضرور ہے مگر دائمی فوائد کا حامل ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنی زبان کے شر سے محفوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے

برقشائیہ

مختلف النوع بلاگز دیکھ کر دل کو یک گونہ خوشی کا احساس ہوتا ہے کہ، جدید ٹیکنالوجی کی بدولت، آج کے زمانے میں عوام الناس کو اپنے خیالات سے پریشان کرنا کس قدرآسان ہوگیا ہے ورنہ بھلے وقتوں میں یہ استحقاق صرف ادیبوں،کالم نگاروں اور سیاستدانوں کے حصے میں آتا تھا

یہ ان بلاگزکا ہی کمال ہے کہ مختلف موضوعات پر بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے، اس خیال کو بھی تقویت ملتی ہے کہ نئی نسل دنیا کے مختلف مسائل پر نہ صرف سوچتی ہے بلکہ اس پر خیال آرائی کی قدرت بھی رکھتی ہے، اب اس کے مسائل میں لب و رخسار،عشوہ و غمزہ اور ہجروفراق کے علاوہ سماج، معاش اور سیاست جیسے عنوانات کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سارے معاملے میں ایک قدرِ مشترک ضرور پائی جاتی ہے کہ سیاسی حالات پر رائے دینا ہر خاص و عام کا پسندیدہ مشغلہ ہے، ہماری نظر میں یہ واحد کام ہے جسے کرنے کیلئے صاحبِ ادراک ہونا چنداں ضروری نہیں

لیجئے،آغاز میں ہی جملہ ہائے معترضہ سے پالا پڑ گیا۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ اب بلاگز کی بدولت اپنی بات کم وقت میں زیادہ لوگوں تک پہنچانا بڑا سہل ہوگیا ہے، ویسے اگر دیکھا جائے تو انٹرنیٹ کے بلاگ کو بلاشبہ برقی انشائیہ کہا جاسکتا ہے اس مناسبت سے “برقشائیہ“ کوئی بُرا اُردو مترادف نہیں ہے۔ برقشائیہ ہمیں یوں بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ بیک وقت غشی اور عیّاشی کے صوتی اثرات کا حامل ہے۔ غشی اور عیّاشی میں یوں بھی ایک منطقی ربط ہے کہ اپنی عیاشی کے ایّام کو یاد کرکے ہر خاص و عام پر غشی کی کیفیت ہی طاری ہوتی ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں

 اپنی اسی عیاشی اور غشی کو الفاظ کا لبادہ اوڑھانے کیلئے ہم نے بھی بلاگ یعنی“برقشائیہ“ کا سہارا لینے کا قصد کیا ہے۔ یوں تو راقم ایک مدت تک زبانِ غیر سے اپنے افکار کی ترجمانی کا کام لیتا رہا مگر بوجوہ ان سطورِ پریشاں کو سپردِ بلاگ کرتے کلیجہ منہ کو آتا تھا کہ لوگ پڑھیں گے تو ہماری علمی کجیوں پر پڑا ہوا پردہ اٹھ جائے گا اور زبانِ فرنگ پر ہماری دسترس کا سارا بھرم جاتا رہے گا۔ ایک عرصہ اسی تذبذب میں گزرگیا اور پھر ایک دن معلوم ہوا کہ سائنسی ترقی کی بدولت اسی قماش کی حرکتیں اُردو میں بھی کی جاسکتی ہیں، سو ہم آپ کے سامنے ہیں

تحریری بدمعاشیوں کے سلسلے میں مضمون کی حیثیت بس ایک افتتاحیے سی ہے تاکہ قارئین مستقبل میں بدمزہ ہونے کیلئے ذہنی تیاری کا سامان کرلیں، پہلے پہل خیال آیا کہ کچھ مشاہدات سے آغاز کیا جائے مگر مشاہدے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی خاص قابلیت نہیں درکار ہوتی، ہمیں ہی لیجئے، ہمارا اپنا ناک نقشہ کچھ ایسا ہے کہ بڑے ناک اور بڑے منہ والے کسی بھی شخص سے ہم کو تشبیہ دے دیجئے، سننے والے فورا آپ کی زبردست قوتِ مشاہدہ کے معترف ہو جائیں گے۔ آپ ہی بتایئے ایسی صورت میں مشاہدے کا بھلا کیا اعتبار رہ جاتا ہے؟

یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے کہ ہر ایسا مصنف جسے پڑھنے کا کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا اس کے پاس کہنے کو ہمیشہ بہت کچھ ہوتا ہے، جس طرح کسی دائم المرض بوڑھے کو ایک خاص مدت تک بیماری بھوگ لینے کے بعد اپنی کیفیت بار بار دوسروں کو بتانے کا مزہ آنے لگتا ہے اور اسی بیانیہ نحوست کی مسلسل تکرار کے بعد وہ رفتہ رفتہ شفایابی کی ضرورت سے بے نیاز ہوتا چلا جاتا ہے، اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ اسے کیسے کیسے خطرناک اور جان لیوا امراض کا سامنا ہے۔ اگر ہم ملکِ پاک کے حوالے سے اپنے عمومی رویوں کا جائزہ لیں تو ہم سب دائم المرض بوڑھے بن چکے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ہمارا سارا زور اپنے امراض کی بجائے ملک و ملّت کے امراض اور ان کی کیفیت بتانے میں صرف ہورہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ہمیں کسی نئے مرض کا مژدہء نہ سنایا جاتا ہو۔ ٹی وی پر آکر اپنی ماہرانہ رائے کی مدد سے روزانہ اس مریض کے نت نئے ٹیسٹ کی رپورٹیں عوام الناس کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں اور مرض کے لاعلاج ہونے کی نوید سنائی جاتی ہے۔ مگر کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک مدت سے ان تمام موذی امراض کا شکار رہنے کے باوجود یہ بزرگ نہ صرف بقیدِ حیات ہے بلکہ رفتہ رفتہ آگے کو بڑھنے کی سکت بھی رکھتا ہے۔

لیجئے بات کہاں سے کہاں جانکلی، ہمیں فقط یہ کہنا مقصود تھا کہ عظیم قومیں افراد کے مثبت رویوں سے تشکیل پاتی ہیں، سیاسی رہنماؤں اور انقلابات کی باری بہت بعد میں آتی ہے۔ اللہ ہم سب کو مثبت رویوں کو اختیار کرنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق دے، لکھنے لکھانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، اگر آپ کو بلاگ پسند آیا تو میں آپ کا مشکور ہوں، اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو آپ یقینا یہ سطور نہیں پڑھ رہے ہوں گے اور اگر آپ بدمزہ ہونے کے باوجود ابھی تک اس کے مطالعے میں مصروف ہیں تو آپ کو مبارک ہو کہ آپ اوسط درجے سے زیادہ وضعداری اور قوتِ برداشت کے مالک ہیں۔

اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو